1,141

کیا معصومین علیہم السلام نے کبھی بھی لعنت کرنے کی ترغیب نہیں دی؟

Print Friendly, PDF & Email

جب اھل بیت علیہم السلام کو اذیت دینے والوں پر لعنت بھیجنے کی بات آتی ہے تو کچھ افراد اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لعنت کو کم سے کم کیا جائے یا اس کو ختم کر ہی دیا جائے، بلکہ لعنت بھیجنے میں ملاعین کا نام نہ لیا جائے۔ اسی طرح ان پر کھلم کھلا لعنت نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ کچھ کا تو کہنا ہے کہ حقیقت میں لعنت کرنا ہی نہیں چاہیۓ تاکہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد برقرار رکھا جا سکا۔

اس بارے میں ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ آل محمد علیہم السلام نے کبھی بھی لعنت کی ترغیب نہیں دی ہے۔

اگرچہ اس قسم کے بے بنیاد اعتراضات کے جوابات موجود ہیں، لیکن ہم ایک ایسا واقعہ پیش کرتے ہیں، جو تبرا کے خلاف اعتراضات کو تمام پہلوؤں سے یکسر خاک کر دیتا ہے۔

بشر المُکاری کہتے ہیں: مجھے کوفہ میں امام صادق علیہ السلام کی موجودگی میں شرف حاصل ہوا۔ امام علیہ السلام کھجوریں کھا رہے تھے ۔ میں داخل ہوا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: بشر میرے ساتھ بیٹھو اور کھجوریں کھاؤ۔

میں نے کہا: میں آپ پر قربان ہو جاؤں راستے میں ، میں نے ایک ایسا نظارہ دیکھا جس سے مجھ کو شدید تکلیف ہوئی اور میں بے چینی کی وجہ سے کھانے سے قاصر ہوں۔

امام علیہ السلام نے کہا: آپ نے راستے میں کیا دیکھا؟
میں نے عرض کیا: راستے میں میں نے دیکھا کہ ایک سرکاری اہلکار ایک عورت کو سر پر مار رہا ہے اور اسے جیل کی طرف گھسیٹ رہا ہے۔ وہ ہر ایک سے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے واسطہ سے مدد کےلیے پکار رہی تھی، لیکن کسی نے بھی اس کی مدد کے لیے پیش قدمی نہ کی۔

امام علیہ السلام نے کہا کہ اس کا جرم کیا تھا:
میں نے کہا: لوگ بیان کر رہے تھے کہ وہ عورت راستے میں ٹھوکر کھائی اور اس حالت میں پکار اٹھی کہ اللہ کی لعنت ہو ان پر جنہوں نے آپ پر ظلم کیا اے فاطمہ (سلام اللہ علیھا)،

امام علیہ السلام یہ سن کر اتنی شدت سے رونے لگےکہ ان کا رومال اور ریش مبارک اور آپ کا مقدس سینہ آنسوؤں سے تر ہو گیا.

امام علیہ السلام نے فرمایا: بشر آؤ ہم مسجد سہلہ کی زیارت کریں اور عورت کی نجات کے لیے دعا کریں۔ اس دوران کسی کو بھیج دو کہ وہ عدالت سے عورت کی حالت کی خبر لے آئے۔

بشر نے کہا: ہم مسجد سہلہ میں داخل ہوۓ اور دو رکعت نماز ادا کی۔ امام علیہ السلام نے عورت کی نجات کی دعا کی اور سجدے میں چلے گئے۔ آپ نے سجدے سے سر اٹھایا اور فرمایا: چلو چلیں کہ انہوں نے اسے آزاد کر دیا۔

اس کے بعد ہم مسجد کے باہر آۓ۔ اتنے میں وہ شخص جس کو ہم نے عورت کی خبر لانے کو روانہ کیا تھا آیا اور امام کو اطلاع دی کہ ان لوگوں اس عورت کو آزاد کر دیا۔

امام علیہ السلام نے پوچھا ؟ کہ اس عورت کو کیسے رہا کر دیا ؟
اس آدمی نے کہا پتہ نہیں لیکن جب میں عدالت گیا تو وہ عورت جیل سے رہا ہو چکی تھی۔ اور اس کو حاکم کے سامنے لایا گیا تھا۔ اس نے عورت سے پوچھا: تم نے ایسا کیا کیا کہ تم کو گرفتار کیا گیا؟

خاتون نے واقعہ بیان کیا۔ حاکم نے اس عورت کو ۲۰۰ درہم {بطور معاوضہ} پیش کیا۔ لیکن اس نے قبول نہ کیا۔ حاکم نے اصرار کیا: ہمیں غلام سمجھ کر درہم لے لو۔ لیکن خاتون نے رقم قبول نہیں کی۔ مگر وہ بہر حال آزاد ہو گئی ۔

امام علیہ السلام نے پوچھا؟ اس نے ۲۰۰ درہم نہیں لیے؟
میں نے کہا: نہیں ، خدا کی قسم

امام علیہ السلام نے فرمایا: بشر یہ سات دینار اسے دے دو کیونکہ اسے اس رقم کی سخت ضرورت ہے۔ اور میرا سلام بھی اس تک پہنچا دو۔

جب میں نے عورت کو سات دینار دیئے اور امام صادق علیہ السلام کا سلام بھی پہنچا دیا تو اس نے خوشی سے پوچھا: کیا امام علیہ السلام نے میرے لیے سلام بھیجا ہے؟

میں کہا ہاں،
وہ عورت خوشی کی وجہ سے بے ہوش ہو گئی۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے دہرایا: کیا امام علیہ السلام نے میرے لیے سلام بھیجا ہے؟

میں نے کہا ہاں اور اس نے مجھ سے تین بار پوچھا۔ اس نے درخواست کی کہ میں امام علیہ السلام کو اپنا سلام پہنچاؤں اور آپ (علیہ السلام) سے درخواست کروں کہ آپ کی دعاؤں کی محتاج ہوں اور مجھے اپنی کنیز سمجھیں۔

وہ بعد میں واپس آیا اور امام صادق علیہ السلام تک یہ بات پہنچادی۔ امام علیہ السلام یہ سن کر رونے لگے اور اس کے لیے دعا کی۔

● مستدرک الوسائل جلد ۳ صفحہ ۴۱۹ مسجد سہلہ میں مستحب نمازوں کے باب کے تحت اور مسجد میں پناہ مانگنا اور غم کے وقت اس میں دعا مانگنا۔
● بحار الانوار جلد ۴۷ صفحہ ۳۷۹-۳۸۰

غور طلب اہم نکات:-

۱۔ تبرا کی صرف اجازت نہیں ہے بلکہ انتہائی سفارش کی جاتی ہے ورنہ امام صادق علیہ السلام اور ان کے اصحاب عورت کی رہائی کے لیے اس حد تک نہیں جاتے۔

۲۔ ٹھوکر کھانے یا کسی مشکل کے وقت آل محمد علیہم السلام کو اذیت دینے والوں پر لعنت کرنے سے مستقبل میں مشکل سے نجات کا امکان ہے۔

۳۔ خواہ تبرا کھلے عام کیا جائے اور دشمنوں تک پہنچ جائے جیسا کہ اس واقعہ میں ہوا ہے۔ آل محمد علیہم السلام کی نیک خواہشات اور فکر مندی کی دعوت دیتے ہیں۔

نتیجہ :
آل محمد علیہم السلام خود اس شخص کے لیے دعا کرتے ہیں اور ہر ممکن مدد بھیجتے ہیں جس نے تبرا کیا ہے، خاص طور پر اگر تبرا اسے مصیبت میں ڈالے۔ یہ بہت سے دوسرے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے جیسے کہ ابو راجح حمامی کا واقعہ جو غاصبوں کو کھلم کھلا گالیاں دیتا تھا، پیٹ پیٹ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا یہاں تک کہ اسے امام مھدی علیہ السلام کی دعا سے نجات ملی.

(تفصیل کے لیے بحار الانوار جلد ۵۲ صفحہ ۷۰ کو دیکھا جا سکتا ہے)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.