اہل تسنن کی کتابوں سے عزاداری کا جواز

ماہ عزا کا آغاز ہوتے ہی جہاں اہلبیتؑ کے چاہنے والے سید الشہداء علیہ السلام کا غم منانے اور ان کی عزاداری کے لیے آمادہ ہوتے ہیں وہیں ان کے مخالفین اس عزاداری کے خلاف بیانات اور فتوے جاری کرنے لگتے ہیں۔ شیعہ علماء اور ذاکرین ہر سال ان اعتراضات کے مدلل جواب دیتے ہیں مگر پھر بھی نئے رخ سے انھیں گھسے پٹے اعتراضات کو دہرایا جاتا ہے۔ ان اعتراضات میں سے ایک بہت ہی عام اعتراض یہ ہے کہ اسلام نے مرنے والے پر رونے سے منع کیا ہے اس لیے کربلا والوں کا سوگ منانا بھی ایک بدعت اور غیر اسلامی عمل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نوحہ اور بکا کرنا دور جاہلیت کا عمل ہے جس سے سرورِ کائنات (ص) نے منع فرمایا ہے۔ اہل تسنن علماء اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے اپنی کتابوں سے روایات نقل کرتے ہیں جن کا مقصد یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ امام حسینؑ کی عزاداری سنّت نبویؐ میں ممنوع ہے۔

ان کے اس اعتراض کے جواب میں ہم ان ہی کی کتابوں سے ثابت کریں گے کہ مرنے والے پر گریہ کرنا یا کسی شہید کی مجلس عزا منعقد کرنا بدعت نہیں ہے بلکہ عین سنّت ہے۔ اہل تسنن کی کتابوں میں ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے پیغمبر اسلام (ص) نے خود عزاداری کی ہے یا اس کا حکم فرمایا ہے ۔ ہم اس مقام پر معتبر سنی کتابوں سے صرف چند روایات و واقعات نقل کررہے ہیں:
١۔حضرت رقیہ کی وفات کے بعد پیغمبر اسلام(ص) نے جنازہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: تم ہمارے نیک اسلاف سے جا ملی۔ عثمان بن مظعون کہتے ہیں کہ وہاں عورتیں گریہ کرنے لگیں تو عمر بن خطاب نے انھیں تازیانہ مارنا شروع کیا تاکہ وہ گریہ کرنے سے باز رہیں تو پیغمبر اسلام(ص) نے اپنے دست مبارک سے عمر کو پکڑا اور کہا “اے عمر ! ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو” اور فرمایا “شیطان سے بچو اور جان لو کہ جب بھی چشم و دل روئے تو وہ خدا کی طرف سے رحمت ہے ۔” عثمان بن مظعون کہتے ہیں جناب فاطمہؑ زہرا قبر رقیہ پر رورہی تھیں اور رسول اکرم (ص)اپنے دامن سے ان کے آنسوؤں کو خشک کررہے تھے ۔(مخالفة الوہابیة للقرآن و السنة ، ص ٥٧ ، سنن بیہقی کتاب جنائز ،ج٥،ص٤٣٥۔ ٤٣٦، سنن ابن ماجہ باب ٥٣،ص٣٧٢،ط۔دار الفکر)

٢۔سید الشہدا جناب حمزہ کی شہادت کے بعد رسول خدا (ص) مدینہ میں آئے تو انصار کے گھروں سے عورتوں کے رونے اور نوحہ کرنے کی آوازیں آرہی تھیں جو اپنے شہیدوں پر رو رہی تھیں تو آپ کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے بھر گئیں پھر آپ (ص)نے فرمایا :میرے چچا حمزہ پر کوئی رونے والا نہیں ہے پھر کچھ عورتیں آئیں اور انہوں نے جناب حمزہ کے لئے عزاداری کی ۔ (المستدرک حاکم کتاب جنائز ج١،ص ٣٨١، منتخب کنزالعمال ج٢،ص ٤٠، سیرہ حلبیہ ،ج٢ ، ص٢٦٠ )

واقدی لکھتے ہیں حادثۂ احد کے بعد جناب حمزہ کی بہن صفیہ رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور جب وہ روتی تھیں تو آنحضرت(ص) بھی روتے تھے اور جب وہ تیز آواز سے روتی تھیںتو پیغمبر اکرم(ص) بھی بلند آواز سے روتے تھے اور اسی طرح جب بھی جناب فاطمہ گریہ کرتی تھیں تو آپ بھی گریہ کرتے تھے۔ (مغازی، ج١،ص٣١٥ )

حضرت حمزہ پر رسول (ص) کے گریہ کرنے کی مختلف روایات ان کے علاوہ بھی بہت سی کتب اہل سنت میں موجود ہیں ۔
(مسند احمد ، ج٢ ، ص ٤٠ ، استیعاب ابن عبد اللہ ، ج١ ،ص٤٢٦و تاریخ طبری ، ج٢ ،ص ٢٧و طبقات ابن سعد،ج٣ ،ص ١١۔و امتاع الاسماع ،ج١ ،ص ١٦٣)

٣۔پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی مادر گرامی کی قبر کی زیارت کی اور بہت روئے یہاں تک کہ آپ کے اصحاب بھی رونے لگے ۔
(مسند احمد ،ج٢، ص ٤٤١ و صحیح مسلم ، ج٢ ،ص ٦٧١و سنن ابن ماجہ ، ج١ ،ص ٥٠١)

٤۔نبی اکرم(ص) اپنے فرزند ابراہیم کی وفات پر زار و قطارر وئے اور رونے کو رحمت سے تعبیر کیا ۔
( سنن ابن ماجہ کتاب جنائز، ج١ ، ص ٤٧٣و٥٠٧و صحیح بخاری ، ج ١ ، باب ٨٢٨و صحیح مسلم ، کتاب فضا ئل باب رحمت ،ص ٩٤٧،ح٢٣١٥ط۔دار الفکار الدولیة سنن ابن داؤد کتاب جنائز ، ج٣، ص ١٩٣)

٥۔ جب پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت جعفر طیار کی غزوہ موتہ میں شہادت کی خبر سنی تو آپ بہت روئے ۔( طبقات ابن سعد ، ج ٨ ، ص ٢٨٢ ، سیرہ ابن ہشام ، ج٤ ،ص ٢٢ ، مغازی واقدی ، ج٢ ص٧٦٦، اصابة ، ج٢ ، ص ٢٣٨، استیعاب ، ج١ ،ص ٣١٣، اسد الغابة ، ج١ ،ص ٢٤١، تاریخ کامل ، ج ٢ ،ص ٤٢٠ ، صحیح بخاری ، ج ٢ ،ص ٢٠٤ ، سنن بیہقی ، ج٤ ، ص ٧٠ ، البدایة و النہایة ، ج٤ ، ص ٢٨٠ ، انساب الاشراف ، ج٢ ،ص ٤٣)

٦۔نبی اکرم (ص)نے اپنے صحابی عثمان بن مظعون کی وفات پر گریہ کیا ۔ (سنن ترمذی ، ج٣ ، ص ٣١٤و مجمع الزوائد ، ج٣، ص ٢٠و سنن ابی داؤود ، ج٣ ، ص ٢٠١ و سنن ابن ماجہ ، ج١ ، ص ٤٦٨ و فتح الباری ، ج٣ ، ص ١١٥ و جامع الاصول ابن اثیر ، ج١١ ، ص ١٠٥ و مستدرک حاکم ، ج١ ، ص ٣٦١)

٧۔پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے صحابی سعد بن خولہ کی وفات پر مرثیہ پڑھا ۔(ارشادالساری احمد بن محمد باب رثیٰ النبی ، ج٢ ، ص ٤٠٦)