یقینًا یہ گزشتہ صحیفوں میں بھی مرقوم ہے۔ ابراہیمؑ اور موسیؑ کے صحیفوں میں بھی
(موجود ہے۔)
خدا وندِ عالم نے انسانوں کی ہدایت کے لیے بہت سے ذرائع بنائے ہیں۔ان میں دو طرح کی حجّت ہیں ایک حجّتِ باطن جو خود انسان کانفس ہے،اس کی عقل ہے اور دوسرے حجّتِ ظاہر جو انبیاء کرام علیہم السلام ہیں۔ خدا نےانسانوں کی ہدایت کے لیے بس اتنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ اس نے اپنے انبیاء کے ذریعہ انسانوں کی رہنمائ کے لیے کتابیں اور صحیفے بھی نازل فرمائے۔ ان میں سے بعض صحیفوں میں ہدایات اور نصیحتیں تھیں تو بعض میں ان ہدایات اور نصیحتوں کے ساتھ ساتھ احکام شریعہ بھی تھے۔ان صحیفوں کی اہمیت اس وجہ سے تو ہے ہی کہ یہ سب کلام الله ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ کتابیں لوگوں کے لیے نبی کی نبوّت ثابت کرنے کے لیے دلیل بھی ہوا کرتے تھے۔ یہ کتابیں اس بات کی مستحکم دلیل ہوتی تھیں کہ الله نے اپنے پیغمبر کو خاص علم سے نوازا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ نبی کی غیرموجودگی میں یا ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد یہ صحیفہ ان کی امت کے لیے میراث اور آثارِ نبوی ہوتے، جن سے نیکوکار افراد استفادہ کرتے۔ مثلاً قرآن مجید ہمارے پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا ایک نایاب معجزہ ہے۔ قرآن کی تعلیمات روز قیامت تک انسانوں کے لیے مشعل راہ اور ہدایت ہے۔ یہ قرآن آثارِ محمّدیؐ میں سے ایک عظیم گوہر ہے۔اسی لیے آنحضرتؐ نے قرآن کے بارے میں بارہا یہ ارشاد فرمایاکہ میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، ایک کتاب الله قرآن اور دوسرے میرے اہل بیتؑ۔اگر تم ان دونوں سے متمسک رہے تو میرے بعدکبھی گمراہ نہ ہوگے۔
اس طرح قرآن کریم اور اہلبیت پیغمبرؐ ہمارے لیے ہادی ہیں اور رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی میراث ہیں۔مگر خود اہلبیتِ پیغمبرؐ علیہم السلام کے لیے الله نے کچھ خاص صحیفے نازل فرمائے ہیں ان میں سے ایک مصحفِ فاطمہ سلام الله علیہا ہے-
اس صحیفہ کی فضیلت کے لیے یہ روایت کافی ہے جسے شیخ کلینیؓ نے کتابِ کافی کی پہلی جلد میں ایک باب “فيه ذكر الصحيفة والجفر والجامعة ومصحف فاطمة عليها السلام” میں نقل کیا ہے۔ امام صادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں یہ جملہ ملتا ہے کہ آپؑ نے فرمایا:
“قال: وإن عندنا لمصحف فاطمة عليها السلام وما يدريهم ما مصحف فاطمة عليها السلام؟ قال: قلت: وما مصحف فاطمة عليها السلام؟ قال: مصحف فيه مثل قرآنكم هذا ثلاث مرات، والله ما فيه من قرآنكم حرف واحد.”
الکافی جلد 1 صفحہ ۲۳۹
“ہمارے پاس مصحفِ فاطمہ علیہا السلام ہے۔ لوگ کیا جانیں کہ مصحفِ فاطمہ علیہا السلام کیا ہے؟” راوی نے سوال کیا: (مولا) یہ مصحفِ فاطمہ سلام الله علیہا کیا ہے؟ آپ علیہ السلام نے جواب دیا:”یہ مصحف تمہارے اس قرآن سے تین گنا بڑا ہے جبکہ اس میں قرآن کا ایک حرف بھی نہیں ہے۔”
اتنا ہی نہیں بلکہ روایات بتاتی ہیں کہ علم لدنّی کے مالک ائمہ علیہم السلام اس صحیفہ کو پڑھا کرتے تھے اور اس سےاستفادہ بھی کرتے تھے۔ کافی کے اسی باب میں ایک روایت میں یہ جملہ ملتا ہے۔
“قال: كنت أنظر في كتاب فاطمة عليها السلام ليس من ملك يملك الأرض الا وهو مكتوب فيه باسمه واسم أبيه۔”
میں نے کتاب فاطمہ علیہا السلام میں دیکھا ہے کہ کوئ بادشاہ زمین (کے کسی حصّہ) پر حکومت نہیں کرےگا مگر یہ کہ اس کا نام اُس کی ولدیت کے ساتھ اس میں لکھا ہے۔
کیا ہے مصحفِ فاطمہ؟
مصحفِ فاطمہ سلام الله سے متعلق روایات شیعہ کتابوں میں تفصیل کے ساتھ نقل ہوئ ہیں۔ کتابِ کافی کے علاوہ دیگر معتبر کتاب مثلا بصائر الدرجات میں بھی اس صحیفے کے بارے میں پورا ایک باب موجود ہے۔ کتابِ کافی میں ثقة الاسلام شیخ کلینیؓ نے معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کیا ہے کہ “جب رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رحلت ہوئ تو جناب فاطمہ سلام الله علیہا اس قدر رنجیدہ ہوئیں کہ خدا کے علاوہ کوئ اور اس غم کی شدّت کو نہیں جانتاتھا۔ پس الله نے جبرئیلؑ کو ان کی طرف بھیجاکہ وہ ان سے بات کریں،انہیں تسلی اور تشفی دے کر ان کے غم واندوہ کو کم کریں۔ جبرئیلؑ ہر روز آتے ان کی دلجوئ کرتے اور ان سے باتیں کرتے۔۔۔۔جبرئیلؑ جو کچھ کہتے امیر الموءمنینؑ وہ لکھتے جاتے تھے یہاں تک کہ ایک کتاب جمع ہوگئ اور یہی مصحفِ فاطمہ سلام الله علیہا ہے اور اس میں قیامت کے دن تک کے تمام حالات موجود ہیں”۔
ایک روایت میں یہ بھی ملتا ہے کہ جب کسی صحابی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ‘علم جفر’ کے بارے میں سوال کیا تو آپؑ نے فرمایا:”یہ علم ایک گائے کی کھال پر لکھا ہوا ہے جس کی لمبائ ستر ذراع ہاتھ اور چوڑائ دوکوہان والے اونٹ کی ران کی کھال کے برابر ہےاور لوگ جن خبروں کےبھی محتاج ہوں گے وہ سب اس میں موجود ہے۔ ہر حکم اور ہر بات اس میں درج ہے حتیٰ کہ خراش کا کیا کفّارہ ہےاس کی بھی تفصیل اس میں موجود ہے۔
راوی نے پوچھا: کیا وہ صحیفہ فاطمہ سلام الله علیہا ہے؟
امام علیہ السلام کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر جواب میں فرمایا”….. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی رحلت کے بعد جبرئیل، جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کے پاس آتے اور انہیں تسلّی وتشفّی دیتے تھے۔جناب فاطمہ سلام الله علیہا کو ان کے بابا اور خود ان کے مقام و مرتبے کی خبر دیتے اور ان کے بعد ان کی ذریت کے حالات کی خبردیتے تھے، علی علیہ السلام ان سب کو لکھتے جاتے اور یہی تحریر مصحف فاطمہؐ ہے۔”